اختیارِ سماعت (1)
Admin
08:47 AM | 2020-02-11
آج میں جس موضوع پے آپ کو لیکچر دینے لگا ہوں وہ ذرا تھوڑا ہٹ کے ہے معاملات کچھ اس نج پے ہے کہ اختیارِ سماعت بنیادی طور پر اس پوائنٹ پے میرا یہ لیکچر ہے ۔ جس کو میں ایک حرف ربط آپ کے سامنے رکھتے ہوئے میں وضاحت کروں گا ۔ ہوا ایسے اے تھا اے کی پراپرٹی پاکستان سے باہر بیرون ملک کسی بھی ملک میں تھی ۔ اے وہاں پے فوت ہوجاتا ہے اب ا کی کچھ پراپرٹیز جو تھی وہ پاکستان میں بھی تھی اب وہ اس کے قانونی وارث دعویٰ دائر کرتے ہیں اس میں باہر کی پراپرٹیز کا بھی معاملا رکھتے ہیں اور پاکستان کی پراپرٹی کا بھی معاملا رکھتے ہیں اور عدالت سے استدعا کی جاتی ہے کہ ہ میں اعلامیہ دی
جائے کہ ہم مرنے والے کے قانونی وارث ہیں اور یہ پراپرٹی بطور وارثان اپنے نام ٹرانسفر کروا سکتے ہیں ۔ جب یہ دعویٰ دائر کیا گیا تو ان میں سے ایک قانونی وارث جو تھا وہ تھوڑا سا شرارتی تھا اس نے اعتراض کردیا کہ جناب یہ جو بیرون ملک پراپرٹی ہے اصل میں وہ وارث تھا وہ بیرون ملک تھا اور وہ چاہتا تھا کہ وہ پراپرٹی اسی کے قبضے میں رہے اور اس کو بیچا نہ جاسکے پیچھے سازش یہ تھی اس نے اعتراض لگایا کہ جناب یہ اختیار سماعت نہیں آپ کو بنتی جو بیرون ملک پراپرٹی ہے اس کی اختیار سماعت نہیں بنتی اسلئے اس کو خارج فرمایا جائے ۔ ٹرائل کورٹ نے ان کی بات ماننے سے انکار کردیا وہ کہا کہ نہیں اختیارِ سماعت ہے قانونی وارثان ثابت ہونے ہے اس پراپرٹی کا ذکر ہوگا ۔ اس کے بعد وہ ڈسٹرکٹ کورٹ میں چلا گیا اپیل کرنے کیونکہ اس کا مقصد تنگ کرنا تھا کرتے کرتے یہ معاملا سپریم کورٹ تک چلاگیا ۔ سپریم کورٹ نے پھر اس معاملے کو لیا لینے کے بعد اس میں ایک حتمی نتیجہ دیا اب حتمی نتیجہ جو دیا اس میں یہ قانون تو واضع کردیاکہ جو جائیداد ملک سے باہر ہے اس کے بارے میں کسی قسم کا بھی کوئی تناظہ ہوگا تو پاکستان کی کسی عدالت کواس پے اختیار ِ سماعت نہیں ہوگا خواہ پارٹیز ادھر رہتی ہے یا نہیں رہتی ۔ پھر انھوں نے نتیجہ کیا کہ اگر کچھ پراپرٹیز ادھر ہیں کچھ پراپرٹیز بیرون ملک ہیں تو دعوے کی بنیاد دیکھی جائے گی کہ دعوے کی بنیاد کیا ہے؟دعوے کی بنیاد یہ ہے کہ ہ میں قانونی وارث مقررکیا جائے ۔ اب قانونی وارث مقرر کرنا دعوے کی بنیاد ہے اس میں مرنے والے کی پراپرٹیز کا ذکر ہے تو پھرعدالت کہتی ہے سپریم کورٹ کہتی ہے کہ جوٹرائل کورٹ ہے وہ اس چیز کو ذہن میں رکھے کہ بنیاد ہے ثابت کرنا کہ مرنے والے کے یہ وارث ہیں مرنے والا ان ان پراپرٹیز کا مالک ہے تو آپ اس دعوے کا فیصلہ کرسکتے ہیں کیونکہ کچھ پراپرٹیز ادھر ہیں کچھ اُدھر ہیں پھر انھوں نے اس چیز پر بھی بات چیت کی کہ اگر کوئی مرنے والا بیرون ملک فوت ہوجاتا ہے اور اس کی وہاں پے منقولہ جائیداد ہیں جیسے بینک اکاءونٹس وغیرہ ا س میں کچھ رقم ہے یا وہ کسی کمپنی میں کام کرتا تھا یا کسی گورنمنٹ نوکری میں تھا اور اس کو کوئی گریجوٹی وغیرہ یہ سارا کچھ ملنا ہے منقولہ جائیدادکچھ بھی ہوسکتی ہے تو اس کے لئے ان کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ ہ میں پاکستان سے قانونی وارث ثابت ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کروا کے ہ میں بجھوایا جائے تو پھر آپ قانونی وارث کو آپ وارثان کو وہ منقولہ جائیداد جوہے نہ وہ جھگڑا کریں گے ۔ ان سارے معاملات کو ذہن میں رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے دو فیصلے دئیے ۔ ایک فیصلہ یہ دیا کہ اگر تو صرف اور صرف پراپرٹی کا معاملا ہے اورپراپرٹی بیرون ملک ہے تو پاکستان کی کسی عدالت کو کوئی اختیارِ سماعت حاصل نہیں ۔ اب پراپرٹی کا معاملا کیا ؟ پراپرٹی کا معاملا وارثان کی حد تک نہیں ہونا چاہیے پراپرٹی کا معاملا آزادانہ ہونا چاہیے کہ ایک بندہ کہتا ہے یہ پراپرٹی مرنے والا مجھے بیچ گیا تھا ۔ اب سپریم کورٹ کہتی ہے کہ پراپرتی بیرون ملک ہے یہ لین دین بیرون ملک ہوئی ہے تواس لئے پاکستان کی کورٹ کو صرف اس بنیاد پے جوہے وہ اختیار ِ سماعت نہیں ہے کہ مرنے والا ایک پاکستانی تھاجس کے ساتھ جھگڑا ہے وہ پاکستانی ہے اس بنیاد پے پاکستانی کورٹس اختیارِسماعت نہیں دی جاسکتی اس کی وجہ بتائی گئی ۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ جب ہم کوئی فارن ڈگری لاتے ہیں کوئی معاملا تھا بیرون ملک کوئی معاملا تھا وہ معاملا وہاں پے طے ہوگیا مثلاََ اے نے بی کو پیسے دئیے اے بھی بیرون ملک تھا بی بھی بیرون ملک تھا ۔ بی اس کے پیسے کھا کے بھاگ کے پاکستان آگیا اے نے وہاں پے دعویٰ دائر کردیا اب اے کا دعویٰ ڈگری ہوگیا اب ڈگری ہونے کے بعد اس غیر ملکی فیصلے کی بنیا د پے اے پاکستان آتا ہے اور پاکستان آکے اس غیر ملکی فیصلے کی بنیاد پے وہ دعویٰ دائر کردیتا ہے اب پاکستانی کورٹس نے سب سے پہلا کام کیا کرنا ہے ؟ سب سے پہلا کام یہ کرنا ہے کہ اس فیصلے کی قدر کرناہے کہ وہ فیصلہ جوہے وہ تمام اختیار سماعت کے ساتھ پاس ہوئی ہے یا نہیں تمام اختیار سماعت کے ساتھ کا مطلب یہ ہے کہ کیا اس عدالت کو علاقائی اختیارِ سماعت تھا؟ کیا اس عدالت کو مالیاتی اختیارِ سماعت تھا؟ اور کیا اس عدالت کو اس مقدمے کو سماعت کرنے کا اختیار تھا؟یہ تین چیزیں جو ہیں وہ عدالت دیکھے گی اگر ان تینوں چیزوں میں سے کوئی ایک چیز لاپتہ ہے جس سے بیرون ملک میں پاس ہوا فیصلہ اس عدالت پے کدگن لگادے کہ اس کے پاس اختیار سماعت نہیں تھی اس کے پاس اختیارِ سماعت نہیں تھا تو کیا ہوگا ؟پاکستانی کورٹ اس غیر ملکی فیصلے کو ماننے سے انکار کردے گی ۔ اسی متمائے نظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے یہ مانا کہ اگر کوئی ایسا فیصلہ جو بیرون پراپرٹی کے بارے میں ہے پاکستان میں پاس ہوتی ہے اور وہ بندہ وہ فیصلہ لے کر بیرون ملک جاتا ہے اور وہاں کی عدالت میں پیش کرتا ہے تو سپریم کورٹ کہتی ہے کہ یہ عدلیہ کے وقار کے منافی ہے کہ بیرون ملک کیا سوچے گی کہ پاکستانی عدالتوں کا نظام کتنا بُرا ہے اس میں قانون کو سمجھنے کی پرکھنے کی صلاحیت ہی نہیں کہ انھوں نے ایک ایسا فیصلہ دے دیا کہ ایک ایسی پراپرٹی کے بارے میں کہ ایک ایسے جھگڑے کے بارے میں فیصلہ دے دی جو جھگڑا جو ہے وہ ہمارے ملک میں پیدا ہوا ہے ۔ اس متمائے نظر کو رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا ۔ اب با ت آجاتی ہے کہ کس جگہ پے کیا کیا کرنا چاہیے؟ پہلی بات اگر آپ نے قانونی وارث مقرر ہونا ہے تو پھر آپ اس مرنے والے کی تمام پراپرٹیز کا اس میں ذکر کریں گے کیوں کیونکہ عدالت نے ان پراپرٹیز سے متعلق آپ کو کوئی فیصلہ نہیں دیتی عدالت نے صر ف آپ کو فیصلہ یہ دینا ہے کہ آپ اس مرنے والے کے قانونی وارثان ہیں مدعی کی طرف سے شواہد پیش کرنے کی روشنی میں کہ جوثبوت پیش کی گئی اس ثبوت کی موجودگی میں آپ اس کے وارث ہیں زیادہ سے زیادہ اختتامی پیراگراف پر جج نہیں لکھیں گے لیکن آپ کی قناعتوں میں لکھ دیں گے کہ مرنے والا ان ان پراپرٹیز کا مالک تھا ۔ جب آپ یہ لکھ دیتے ہیں کہ مرنے والا ان ان پراپرٹیز کا مالک تھا تواس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جج نے کوئی لفظی دے دیا جج کا لفظی اعلان کی حد تک ہے کہ مرنے والے کے آپ وارثان ہیں ۔ اب پہلی بات میں نے آپ کو بتا دی کہ آپ نے اعلامیہ لینی ہے کہ آپ وارثان ہیں تواس کے لئے آپ دنیا جہاں کی پراپرٹیز اس بندے کی لکھوا سکتے ہیں اس میں کوئی دوسری رائے نہیں لیکن اگر اس پراپرٹی کا کوئی جھگڑاچل رہا ہے خواہ وہ جھگڑا دو ایسے بندوں کے درمیان چل رہا ہے جو دونوں پاکستان میں موجود ہیں جو دونوں پاکستان کے شہری ہیں تو پھر سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ بھئی پاکستان کی عدالتوں کو کوئی اختیارِ سماعت نہیں ہے پاکستان کی عدالتیں ایسا نہیں کرسکتیں ۔ اب حالیہ ایک معاملا آیا میرے پاس اس میں ایک شخص نے دوسرے شخص کو جو دونوں بیرون ملک تھے ۔ ایک شخص نے اے نے بی کو سوالاکھ ریال ادھار دے دئیے دو ماہ کے لئے وہ شخص بعد میں مکر گیا اس نے اس کے عوض بعد میں دو ماہ بعد اس کو چیک دے دیئے اسی مالیت کے اس نے وہ چیک جمع کروائے وہ ڈس اونر ہوگئے ڈس اونر ہونے کے بعد وہ اس کے پیچھے رہا لیکن وہ کرتا کرتا کرتا اس نے دو چاربندوں اوروں کے ساتھ فراڈ کیا وہ فراڈ کرکے پاکسان آگیا ۔ اب اس شخص نے اس کورٹ میں دعویٰ دائر کیا سعودیہ کی کورٹ میں اس ملک کی کورٹ میں دعویٰ دائر کیا کہ میرے ساتھ یہ یہ ہوگیا ہے انھوں نے بی کو طلب کیا ۔ بی نہیں آیا انھوں نے دوبارہ بی کو طلب کیا نہیں آیا ۔ اے کا بلڈ پریشر کم زیادہ ہونا شروع ہوگیا کہ میرا چالیس پچاس لاکھ روپے کھا کے چلا گیا ہے میں کہاں جاءوں ۔ وہ چلا گیا پاکستان ایمبیسی ۔ پاکستان ایمبیسی میں بتایا کہ جناب میرے ساتھ یہ یہ ہوگیا ہے ۔ پاکستان ایمبیسی نے ایک خط لکھ کے دے دیا کہ جناب یہ خط ہے ہمارا آپ جائیں ایف آئی اے سے کرلیں سلسلہ کار وہ شخص اتنا پریشان تھا کہ اس نے اس عدالت کی کاروائی کو مکمل نہیں ہونے دیا وہ باقاعدہ پیسہ خرچ کے ٹکٹ لے پاکستان آگیا اس نے ایف آئی اے کو بھی لکھ دی درخواست اسی خط کو کورنگ لیٹر بنا کے ایمبیسی کا اس نے چیف جسٹس پاکستان کو بھی لکھ دی اس نے ہر ادارے کو اس نے جو ہے نہ بیرون ملک پاکستانی ہر ادارے کو اس نے وہ درخواست دے دی ۔ اب وہ آیا میرے پاس میں نے جب اس کا معاملا سنا تو میں نے کہا بھئی آپ سکون کے ساتھ بیٹھیں اس کے بعد میری بات غور سے سنیں آپ کا چالیس پچالیس لاکھ روپے کا نقصان ہوا آپ کے ساتھ فراڈ ہوا وہ بندہ آپ کے پیسے مار کے آگیا یہ مثلمہ حقیقت ہے یہ آپ جانتے ہیں بالکل جانتے ہیں یا جس نے مارے ہیں وہ جانتے ہیں قانون اس بات کو اس صورت حال تک لے کے نہیں جارہا ۔
Leave a comment